🌷 راہِ نجات 🌷
انسان کو جو کچھ بھی نفع پہنچتا ہے جب کوٸی خوبی اور بھلاٸی اُس کے نفس میں آ جاۓ نفس کے اندر پیوست ہو جاٸیں ۔باہر کتنی ہی خوبیاں پھیلی ہوٸی ہوں لیکن وہ انہیں اندر نہ لے اس کے لٸے نفع کی صورت پیدا نہیں ہوتی۔
اللہ نے انسان کے دل میں دو دروازے رکھے ہیں ایک دروازہ کھلتا ہے تو عرش کی چیزیں نظر آتی ہیں اور ایک دروازہ کھلتا ہے تو فرش کی چیزیں نظر آتی ہیں۔دل میں آنکھ ، کان ، ناک کے راستہ سے جب آدمی دیکھے گا تو ظاہری چمک دمک پھول بوٹے سب نظر آٸیں گے اور اگر ان آنکھ،کان ، ناک کے دروازوں کو بند کر کے دل کے اندر کے دروازے کھولے گا تو عرش کی چیزیں نظر آٸیں گی ، وہاں کے کمالات اترنے شروع ہوں گے۔
نبیﷺ نے فرمایا ” سارے انسان تباہ و برباد ہونے والے ، سب ہلاک ہونے والے ہیں اگر بچیں گے تو اہلِ علم بچ سکتے ہیں“
یعنی جہالت میں انسان کی نجات نہیں ہے علم میں انسان کی نجات ہے دنیا کا علم ہو یادین کا علم ہی سے راستہ نظر پڑ سکتا ہے جہالت سے راستہ نظر نہیں پڑ تا۔
حدیث میں ہے کہ کہ معراج کی شب میں نبی کریم ﷺ جب ساتویں آسمان پر پہنچے ہیں تو ساتویں آسمان پر فرشتوں کا قبلہ ہے جس کو بیت المعمور کہتے ہیں ۔انسانوں کا قبلہ مکہ
میں ہے جس کو بیت اللہ کہتے ہیں اس میں لوگ طواف کرتے ہیں ادھر کو رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں ساتویں آسمان پر فرشتوں کا قبلہ ہے فرشتے اس میں طواف کرتے ہیں پھر چھٹے آسمان میں اس کی سیدھ میں دوسرا قبلہ ہے چھٹے آسمان کے فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں پانچویں آسمان میں اس کی سیدھ میں اور قبلہ ہے غرض ساتوں آسمانوں میں اوپر نیچے ایک سیدھ میں قبلے ہیں زمین پر ٹھیک اسی کے سیدھ میں قبلہ ہے جس کو آپ کعبہ کہتے ہیں۔
حدیث میں ہے کہ اگر بیت المعمور سے کوٸی پتھر ڈالا جاۓ تو ٹھیک بیت اللہ الکریم کی چھت پر آ گرے ۔
اصل میں یہ قبلہ محل اور مکان ہے عمارت قبلہ نہیں اگر عمارت نہ بھی رہے معاذاللہ اس کو ڈھا دیا جاۓ نماز جب بھی ادھر ہی کو منہ کر کے پڑھنی پڑے گی اس واسطے کہ قبلہ ان پتھروں کا یا مکان کا نام نہیں بلکہ اس موضع اور محل کا ہے جہاں وہ عمارت بنی ہے ساتویں زمین سے لے کر ساتویں آسمان تک ایک ہے وہ ہی قبلہ ہے۔
بہر حال ساتویں آسمان پر آپ ﷺ کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوٸی جو بیت المعمور کی دیواروں سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوۓ تھے۔اور وہ جگہ غالباً اس لیے دی گٸ کیونکہ دنیا میں انہوں نے بیت اللہ الکریم کی تعمیر کی ہے تو جیسا عمل تھا ویسی جزإ سامنے آٸی ساتویآسمان پر بیٹھنے کے لٸے بھی انہیں بیت اللہ دیا گیا۔نبی کریم ﷺ سے مل کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ:۔
اے محمد ﷺ ! اپنی امت کو میرا سلام کہہ دینا اور کہہ دینا کہ الجنت قیعان ۔ جنت تمہارے حق میں چٹیل میدان ہے اس میں کوٸی چیز بنی ہوٸی نہیں جو بھی محلات اور باغات ہوں وہ تمہارے لٸے کچھ نہیں تم جب کوٸی عمل کرو گے تمہیں جب ہی ان محلات کا استحقاق پیدا ہو گا تم اپنی جنت خود بناو گے بنی بناٸی جنت تمہاری نہیں ہے خود تمہیں بنانی پڑے گی جیسے عمل کرو گے ویسا ہی وہاں ثمرہ مرتب ہو جاۓ گا۔
حدیث میں ہے کہ جنت میں ایک محل تعمیر کیا جاتا ہے ملاٸکہ اس کی تعمیر کرتے ہیں ۔تعمیر کرتے کرتے ایک دم تعمیر رک جاتی ہے دوسرے فرشتے پو چھتے ہیں تم تو تعمير بنا رہے تھے رک کیوں گۓ؟ وہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی فلاں عمل کر رہا تھا ہم اس کے لۓ مکان بنا رہے تھے اس نے عمل کرنا چھوڑ دیا ہم نے تعمیر روک دی تو درحقيقت جنت کی تعمیر آپ خود یہاں بیٹھ کر کرتے ہیں ہر انسان معمار ہے
کوٸی دنیا میں بیٹھ کر جہنم بنا رہا ہے کوٸی جنت بنا رہا ہے اپنی اپنی محنت کر رہے ہیں۔
اور عمل بھی وہ ہی کار آمد ہے جس میں غرّہ نہ ہو انسان اتراۓ نہیں دل میں خلوص ہو دوسروں کو کم تر نہ سمجھے تب ہی نیک عمل قبول ہو گا۔
No comments:
Post a Comment