جہادفی سبیل اللہ ایمان کے بعد افضل ترین عمل ہے۔
جو لوگ اللہ کے راہ میں جہاد کرتے ہیں تو اللہ ان کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں :
ترجمہ: ”اے ایمان والو !اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔ “
سورة محمد ٧
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے الصف۔١٠۔١٤
اے ایمان والو! میں تم کو ایسی تجارت نہ بتادوں جو تم کوایک درد ناک عذاب سے بچالے ۔ تم لوگ اللہ تعالیٰ پر اوراس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اورجان سے جہاد کرو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ (جب ایسا کرو گے تو) اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کردے گا اورتم کو جنت کے ایسے باغات میں داخل کردے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اورعمدہ مکانوں میں (داخل کرے گا) جو ہمیشہ رہنے کے باغو ں میں (بنے )ہوں گے یہ بڑی کامیابی ہے اورایک اورچیز (تمہیں دے گا) جس کو تم پسند کرتے ہو یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور جلدی فتح یابی اورآپ ایمان والوں کو بشارت دے دیجئے۔ اے ایمان والو ! تم اللہ تعالیٰ کے (دین کے ) مددگار بن جاؤ جیسا کہ عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام ) نے اپنے حواریوں سے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہومیرا (تم میں سے ) کون مدد گار ہے! وہ حواری بولے ہم اللہ تعالیٰ (کے دین )کے مددگار ہیں بنی اسرئیل میں سے کچھ لوگ ایمان لائے اور کچھ لوگ منکر رہے پس ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں کے مقابلے میں قوت دی پس وہ غالب ہوگئ
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
”ترجمہ: جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں ۔“ (النسإ٧٦)
طاغوت کا مصدر طغیان ہے جس کے معنی حد سے گزر جانے کے ہیں۔ دریا جب اپنی حد سے گزر جاتا ہے تو آپ کہتے ہیں طغیانی آ گٸ ہے۔اسی طرح جب آدمی اپنی حد سے گزر کر اس غرض کے لیے اپنی طاقت استعمال کرتا ہے کہ انسانوں کا خدا بن جاۓ یا اپنے حصہ سے زاٸد فوائد حاصل کرے ،تو یہ طاغوت کی راہ میں لڑنا ہے۔۔۔۔اور اس کے مقابلہ میں راہ خدا کی جنگ وہ ہے جس کا مقصد صرف یہ ہو کہ قانون عدل دنیا میں قاٸم ہو۔
ایک اور جگہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
”خدا کی لعنت ان ظالموں پر جو خدا کے بناۓ ہوۓ زندگی کے سیدھے راستے سے روکتے ہیں اور اس کو ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں۔“ (ھود١٩)
اللہ تعالیٰ سورۃ توبة میں ارشاد فرماتے ہیں:
”اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوا جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو زمین پرگرے جاتے ہو کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو گۓ ہو ، دنیا کی زندگی کا فاٸدہ تو آخرت کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔“ (38)
شریعت اسلامی کی اصطلاح میں ”دین اسلام کی اشاعت و ترویج ، سر بلندی و اعلإاور حصول رضاۓ الٰہی کے لیے اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی، اور ذہنی صلاحيتوں اور استعدادوں کو وقف کرنا جہاد کہلاتا ہے
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم فرماتے تھے :
”اگر دین کا غلبہ چاہتے ہو تو جہاد کرو نہیں کرتے ہو تو پھر جہنم سے چھٹکارا پانے کا خیال بھی تمہاری خام خیالی ہے ۔“
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کا بیان ہے،رسول اللہﷺ نے فرمایا : میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق کے لیے قتال کرتا رہے گا اور وہ اپنے مقابل آنے والوں پر غالب رہیں گے حتیٰ کہ ان کا آخری گروہ مسیح دجال سے لڑائی کرے گا۔“
ہرقل نے ان سے کہا تھا میں نے تم پوچھا تھا کہ ان کے یعنی ( نبی کریمﷺ) کے ساتھ لڑاٸیوں کا کا انجام رہتا ہے تو تم نے بتایا کہ لڑائی ڈولوں کی طرح ہے کبھی ادھر کبھی ادھر یعنی کبھی لڑائی کا انجام ہمارے حق میں ہوتا ہے اور کبھی ان کے حق میں ۔ انبیإ کا بھی یہ ہی حال ہوتا ہے کہ ان کی آزمائش ہوتی رہتی ہے ( کبھی فتح کبھی ہار ) لیکن انجام انہیں کے حق میں اچھا ہوتا ہے۔
صحیح بخاری۔2804
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو شخص بھی اللہ کے راستے میں زخمی ہوا اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون زخمی ہوا ہے وہ قیامت کے دن اس طرح سے آۓ گا کہ اس کے زخموں سے خون بہہ رہا ہو گا رنگ تو خون جیسا ہو گا لیکن اس میں خوشبو مشک جیسی ہو گی۔“
صحیح بخاری۔2803
نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال ۔۔۔۔۔۔اوراللہ تعالیٰ اس شخص کو خوب جانتا ہے جو (خلوص دل کے ساتھ صرف اللہ کی رضا کے لیے) اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے ۔۔۔اس شخص کی سی ہے جو رات میں برابر نماز پڑھتا رہے اور دن میں برابر روزے رکھتارہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والے کے لیے اس کی ذمہ داری لے لی ہے کہ اگر شہادت دے گا تو اسے بے حساب و کتاب جنت میں داخل کرے گا یاپھر زندہ و سلامت (گھر) ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ واپس کرے گا۔
رسول ﷺ نے فرمایا فتح مکہ کے بعد ہجرت (فرض)نہیں رہی البتہ جہاد اور نیت بخیر کرنا اب بھی باقی ہیں اور جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جاۓ تو نکل کھڑے ہواکرو۔
آج اگر ہم دیکھیں توایسا معلوم پڑتا ہے جیسے قرآن و حدیث کی یہ ساری باتیں آج ہی کے لیے ہمیں بتائی گٸ ہیں ۔ آج جو ظلم مسلمانوں پر ہو رہا ہے انہیں ان کے گھروں سے نکالا جارہا ہے تو جہاد ہی کے ذریعے ان ظالموں سے نجات حاصل کر کے دین اسلام کا نام سر بلند کیا جا سکتا ہے اور پھر مجاہدین کی مدد کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے لیا ہے اور جو لوگ شوق ، جذبہ جہاد نہیں رکھتے ان کے بارے میں قرآن کہتا ہے
ترجمہ(سورۃ النسإ)
جو مسلمان (گھروں میں ) بیٹھ رہتے (اور لڑنےسے جی چراتے) ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے وہ اورجو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اورجان سے لڑتے ہیں وہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔ مال اورجان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجے میں فضیلت بخشی ہے اور (گو) نیک وعدہ سب سے ہے لیکن اجر عظیم کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہیں اور رحمت میں اور اللہ تعالیٰ بڑ ا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔
بے شک مجاہد کا رتبہ بہت بڑا ہے اور اجر بھی بے حساب ہے۔
فضل بن زیادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک بار امام احمد رحمہ اللہ بن حنبل کے سامنے جہاد کا تذکرہ آیا تو آپ روتے ہوئے فرماتے تھے کہ نیکیوں میں جہاد سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں۔ کسی اور نے امام احمد رحمہ اللہ بن حنبل کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں آپ نے فرمایا دشمن کے ساتھ لڑنے کے برابر کوئی عمل نہیں ہے جہاد میں نکلنا ہی سب سے افضل عمل ہے وہ لوگ جو دشمنوں سے لڑتے ہیں وہی اسلام اور اس کی عزت کے محافظ ہیں۔ تو ایسے لوگوں سے زیادہ افضل عمل کس کا ہوسکتا ہے جو دوسروں کے امن کی خاطر خود خوف کا سامنا کرتے ہیں اوراپنی زندگی کی رونقوں [اورلذتوں] کو قربان کرتے ہیں۔ (المغنی لابن قدامہ)
[اسی طرح ]ایک اور شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسا عمل بتادیجئے جس کے ذریعے میں مجاہدین فی سبیل اللہ کے عمل [کے مقام ] تک پہنچ سکوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ! اگر تو رات کو قیام کرے اور دن کو روزے رکھے تب بھی تو مجاہد کی نیند کے مقام کو نہیں پاسکتا۔ (کتاب السنن لسعید بن منصور)