یہ امر کسی سے مخفی نہیں کہ ارضِ مقدسہ فلسطین صرف اہل فلسطین کے لیے مبارک نہیں بلکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے باعث برکت ہے ۔ انبیإ کی سر زمین ہے اسی سر زمین سے رسول اکرم ﷺ کو اسریٰ اور معراج کا شرف حاصل ہوا۔اور اپنے بیت القدس کی حفاظت صرف فلسطین میں رینے والے مسلمانوں کی نہیں بلکہ دنیا کے جس جس کونے میں بھی کوٸی مسلمان ہے اس کا فرض بنتا اپنے آباو اجداد کی سر زمین کی حفاظت کرے اپنی جان،مال،اولاد جیسے بھی ہو سکے۔
دوسرے لحاظ سے دیکھا جاۓ تو اسرائيل جس بربریت کا آج تک مظاہرہ کرتا آ رہا جس طرح وہاں کے ہمارے مسلم بہن بھاٸیوں پر ظلم کے پہاڑ تورتا رہا ہے انہیں تباہ و برباد کرنے کے ہتھکنڈے استعمال کرتا آرہا ہے کبھی انکے گھر تباہ کر دیٸے جاتے ہیں تا کبھی ان پر میزاٸل اور ڈرون کے زریعے حملے کرتا رہا ہے بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں کو شہید کرتا آ رہا ہے ۔۔۔۔۔تو کبھی انہیں بجلی و پانی کو نظام معطل کر دیتا ہے تو کبھی ادویات کی فراہمی معطل کر دی جاتی ہے۔۔۔۔کیوں آخر صرف اس لیے کہ وہ مسلمان ہیں ؟ اور پھر کیا یہ خود کم ہیں جو غیر مسلم طاقتیں اس کی مدد کر رہی ہیں ۔ تو سوال یہ ہے کہ ہم مسلمان کہاں ہیں دنیا میں جہاں بھی ہیں اس سب ظلم کو روکنے میں ہمارا کردار کیا ہے ؟ اپنے ایمان کا امتحان ہے یہ کہ اپنے انبیإ علیہ اسلام کی سر زمین کے لیے کیا کر رہے ؟ اور ان مظلوم بہن بھاٸیوں کے بہتے خون سسکتے آنسووں کو روکنے کے لیے کیا اقدام کر رہے ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مومن دوسرے مومن کے لیے سیسہ پلاٸی ہوٸی عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کے لیے پشتی زبان کا کام دیتا ہے۔تمام اکنافِ عالم کے مسلمان بھاٸی بھاٸی ہیں، نہ جغرافی حدود انھیں جدا کر سکتے ہیں اور نہ زبان اور رنگ کا اختلاف ان میں تفرقہ ڈال سکتا ہے۔پس عالمِ اسلام ایک عمارت کی طرح ہے یا ایک جسم کی مانند ہے۔
اور جو حالات آج فلسطین میں بنے ہوۓ ہیں اس وقت ان کا ساتھ دینا ہر مسلمان کا فرض ہے کیونکہ جس طرح مسمان پر نماز ، روزہ ، حج اسلام کے باقی ارکان فرض ہیں اسی طرح جہاد بھی فرض ہے ۔ اللہ تعالی سورہ الحج میں فرماتے ہیں ترجمہ : اور ان لوگوں کو اجازت دے دی گٸی ہے( جہاد کی) جن سے جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا اور بے شک اللہ ان (مظلوموں ) کی مدد پر قادر ہے۔
جہاد فرض ہے ظلم کے خلاف چاہے وہ میدان جنگ میں کافروں کے مقابلے میں ہو۔چاہے جابر حکمران کے سامنے ہو سچ کے ساتھ کھڑا رہنے کے لیے،چاہے وہ قلم کے ساتھ کیا جاۓ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ۔۔۔۔۔۔اور آج ہم جس دوراہے پہ کھڑے ہیں ان تینوں قسم کے جہاد کی سخت ضرورت ہے تو جو مسلمان جس حد تک کر سکتا اسے اپنا فرض نبھانا چاہٸے تا کہ کل قیامت کے دن ہم بھی اس پرندے کی طرح جس نے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے لٸے جلاٸی گٸ آگ جو اتنی بھڑکاٸی گٸ تھی کہ اس کےشعلے انتہائی بلندیوں کو چھو رہے تھے اس کوبجھانے کے لیے اپنی چونچ میں پانی بھر بھر کے اس آگ کو بجھانے کی کوشش کرتا رہا وہ پرندہ جانتا تھا کہ اس آگ کے سامنے اس قطرے کی کوٸی اہمیت نہیں لیکن کل قیامت کے دن اللہ تعالی اور اپنے نبی حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا سامنا بھی تو کرنا تھا۔۔۔۔۔۔تو اس نے صرف اپنا فرض نبھایا باقی اللہ پہ چھوڑ دیا تو آج وقت کا تقاضا بھی یہ ہی کہتا ہے ۔اپنے مظلوم بہن بھاٸیوں کے لیے ، چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے لٸے ، پتا نہیں وہ کس حا ل میں ہوں گے بھوکے ،پیاسے، سردی ، گرمی، تکلیف ،درد سہتے سہتے نڈھال ہو رہے ہوں گے۔ان کے لیے اٹھنا لازم ہے ہم پر آج۔۔۔۔
علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا فلسطین کے لیے !
’ضرب کلیم ‘ کی ایک نظم ’دام تہذیب‘ میں علامہ اقبال رح نے غم ملت کا بیان کچھ یوں کیا ہے :
جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقد دشوار
ترکانِ جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر
بے چارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار۔