بیٹیاں آج بھی زندہ درگور ہوتی ہیں................
بیٹیاں آج بھی زندہ درگور ہوتی ہیں بہت سے لوگ میری اس بات سے اتفاق نہیں کرریں گے
لیکن یقین جانیں میں جھوٹ نہیں کہہ رہی فرق صرف اتنا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں گڑھا کھود کر
اسے اس میں ڈال دیا جاتا تھا اور اس کے اوپر مٹی ڈالتے جاتے تھے اس کے رونے،چیخنے پر کوئ دھیان نہیں دیتا تھا جیسے اس بچی کی تکليف سے یا رونے سے ان مردوں کوکوئی فرق نہیں پڑتا تھا
آہستہ آہستہ اس گڑھے میں ڈالی گئی بچی کے رونے کی آواز کم ہوتی جاتی ہے پھر سسکیوں میں بدلتی ہے اور پھر سانس گٹھتا جاتا ہے مٹی بڑھتی جاتی ہے آخر کار مٹی اور مٹا کے اوپر چلنے والے لوگوں کی اَنا جیت جاتی ہے اور مٹی کے نیچے دبی لڑکی کی سسکیاں دم توڑ جاتی ہیں اور اس کا جسم مزاحمت چھوڑ دیتا ہے اور ان سفاک مردوں کے ہاتهوں وہ جان سےہاتھ دھو بیٹھتی ہیں
اور آج کے دور میں بیٹی زندہ رکھ کر اس کی سانسوں کی ڈور کو اپنے ہاتهوں میں رکھ لی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ اس کو کھینچتے رہتے ہیں تا کہ وہ کھل کر سانس نہ لے سکے پھر جب جب وہ بڑی ہوتی جاتی ہے وہ ڈور تنگ ہوت جاتی ہے پھر ایک دن آتا ہے کہ اس سے اس کا حق چھین کر کبھی وہ خاندان کی عزت پہ قربان کیا جاتا ہے ، تو کبھی انا کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے کبھی بوجھ سمجھ کر سر سے اتارا جاتا ہے اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس حق تلفی کو کوئی برا نہیں سمجھتا الٹا کہا جاتا بڑوں کا حق ہے کہ جو چاہے کریں پھر ان فیصلوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے.........؟ وہ بیٹی یا تو تمام عمر پنے جذبات کاگلا گھونٹ کر روز سسک سسک کے اپنی زندگی کے لمحے گزارتی ہے یا اک ہی پل گڑھے میں ڈالی گئی بیٹی کی مانند اپنے اندر کچھ زہر انڈیل کر تھوڑی تڑپ، مزاحمت کے بعد اس کی سسکیاں بھی دم توڑ جاتی ہیں
جیسے ابھی دو دن پہلے ہمارے علاقے میں ایک بیٹی نے کیا کیوں کہ اس کی شادی اس کی مرضی کے بِنا کہیں طے پا گئی تھی صبح دن ڈالنے کے لیے آنا تھا لڑکے والوں نے مگر بیٹی کے لیے رات ہی مقدر میں تھی......
ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک بیٹی روتی ،بلکتی آئی کہ سسرال والے بہت ظلم کرتے ہیں مگر اس کی ایک نہ سنی گئی اور اسی وقت اسے واپس چھوڑ آۓ کہ بیٹیاں ںسسرال میں ہی اچھی لگتی ہیں اس کی فریاد، ظلم کی داستان سنانے کا کوئ اثر نہ ہوا نتیجہ کیا نکلا اسی رات اس کے سسرال والوں نے اسے جلا ڈالا اور بیٹی کی شکل بھی پہچاننے نہ پائی.............
کوئی ماں چار،چار ،چھ،چھ بچوں کے بعد جب خود کشی کرتی ہے نا تو تب جب وہ دکھ،درد،اذیت جیسے لفظوں سے بہت آگے نکل چکی ہوتی.........
یہ دو تین واقعات کوئی بہت پرانے نہیں ہیں اور نہ ہی جاہل لوگوے کے یہ واقعاتااچھے خاصے عزت دار
، پڑھے لکھے ،کھاتے بیتے گھرانوں کے ہیں
کوئ بیٹی اپنا گھر نہیں اجاڑنا چاہتی جب تک اس کی زندگی داؤ پہ نہ لگے.......
جب اسلام نے اسے حق دیا اقرار یا ا نکار کا تو عزت،غیرت یا انا کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.......
زمانہءجاہلیت میں تو زندگی سے آذادی مل جاتی چند پل کی تکلیف کے بعد سکون مل جاتا تھا
پر آج کی بیٹی کیا کرے جو صرف باپ کی عزت کا سوچتی جھوٹی انا کے آگے اپنا حق چھوڑ دیتی......
خدا را کچھ تو سوچو کچھ تو دنیا کوچھوڑ کر صرف الله کے احکام کا مطالعہ کرو
کی سنت کا مطالعہ کرو ﷺمُحَمَّدُ
اور یاد رکھو جن لوگوں نے بیٹیاں زندہ درگور کیں حکمِ الہی کے بعد ان کی توبہ تو یقیننا قبول ہو گئی
لیکن بیٹیوں کے حقوق چھیننے کے بعد اوّل تو انسان معافی ہی نہیں مانگتا اور بالفرض مانگے تو .........؟؟سو چئے گا
بیٹیاں آج بھی زندہ درگور ہوتی ہیں بہت سے لوگ میری اس بات سے اتفاق نہیں کرریں گے
لیکن یقین جانیں میں جھوٹ نہیں کہہ رہی فرق صرف اتنا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں گڑھا کھود کر
اسے اس میں ڈال دیا جاتا تھا اور اس کے اوپر مٹی ڈالتے جاتے تھے اس کے رونے،چیخنے پر کوئ دھیان نہیں دیتا تھا جیسے اس بچی کی تکليف سے یا رونے سے ان مردوں کوکوئی فرق نہیں پڑتا تھا
آہستہ آہستہ اس گڑھے میں ڈالی گئی بچی کے رونے کی آواز کم ہوتی جاتی ہے پھر سسکیوں میں بدلتی ہے اور پھر سانس گٹھتا جاتا ہے مٹی بڑھتی جاتی ہے آخر کار مٹی اور مٹا کے اوپر چلنے والے لوگوں کی اَنا جیت جاتی ہے اور مٹی کے نیچے دبی لڑکی کی سسکیاں دم توڑ جاتی ہیں اور اس کا جسم مزاحمت چھوڑ دیتا ہے اور ان سفاک مردوں کے ہاتهوں وہ جان سےہاتھ دھو بیٹھتی ہیں
اور آج کے دور میں بیٹی زندہ رکھ کر اس کی سانسوں کی ڈور کو اپنے ہاتهوں میں رکھ لی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ اس کو کھینچتے رہتے ہیں تا کہ وہ کھل کر سانس نہ لے سکے پھر جب جب وہ بڑی ہوتی جاتی ہے وہ ڈور تنگ ہوت جاتی ہے پھر ایک دن آتا ہے کہ اس سے اس کا حق چھین کر کبھی وہ خاندان کی عزت پہ قربان کیا جاتا ہے ، تو کبھی انا کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے کبھی بوجھ سمجھ کر سر سے اتارا جاتا ہے اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس حق تلفی کو کوئی برا نہیں سمجھتا الٹا کہا جاتا بڑوں کا حق ہے کہ جو چاہے کریں پھر ان فیصلوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے.........؟ وہ بیٹی یا تو تمام عمر پنے جذبات کاگلا گھونٹ کر روز سسک سسک کے اپنی زندگی کے لمحے گزارتی ہے یا اک ہی پل گڑھے میں ڈالی گئی بیٹی کی مانند اپنے اندر کچھ زہر انڈیل کر تھوڑی تڑپ، مزاحمت کے بعد اس کی سسکیاں بھی دم توڑ جاتی ہیں
جیسے ابھی دو دن پہلے ہمارے علاقے میں ایک بیٹی نے کیا کیوں کہ اس کی شادی اس کی مرضی کے بِنا کہیں طے پا گئی تھی صبح دن ڈالنے کے لیے آنا تھا لڑکے والوں نے مگر بیٹی کے لیے رات ہی مقدر میں تھی......
ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک بیٹی روتی ،بلکتی آئی کہ سسرال والے بہت ظلم کرتے ہیں مگر اس کی ایک نہ سنی گئی اور اسی وقت اسے واپس چھوڑ آۓ کہ بیٹیاں ںسسرال میں ہی اچھی لگتی ہیں اس کی فریاد، ظلم کی داستان سنانے کا کوئ اثر نہ ہوا نتیجہ کیا نکلا اسی رات اس کے سسرال والوں نے اسے جلا ڈالا اور بیٹی کی شکل بھی پہچاننے نہ پائی.............
کوئی ماں چار،چار ،چھ،چھ بچوں کے بعد جب خود کشی کرتی ہے نا تو تب جب وہ دکھ،درد،اذیت جیسے لفظوں سے بہت آگے نکل چکی ہوتی.........
یہ دو تین واقعات کوئی بہت پرانے نہیں ہیں اور نہ ہی جاہل لوگوے کے یہ واقعاتااچھے خاصے عزت دار
، پڑھے لکھے ،کھاتے بیتے گھرانوں کے ہیں
کوئ بیٹی اپنا گھر نہیں اجاڑنا چاہتی جب تک اس کی زندگی داؤ پہ نہ لگے.......
جب اسلام نے اسے حق دیا اقرار یا ا نکار کا تو عزت،غیرت یا انا کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.......
زمانہءجاہلیت میں تو زندگی سے آذادی مل جاتی چند پل کی تکلیف کے بعد سکون مل جاتا تھا
پر آج کی بیٹی کیا کرے جو صرف باپ کی عزت کا سوچتی جھوٹی انا کے آگے اپنا حق چھوڑ دیتی......
خدا را کچھ تو سوچو کچھ تو دنیا کوچھوڑ کر صرف الله کے احکام کا مطالعہ کرو
کی سنت کا مطالعہ کرو ﷺمُحَمَّدُ
اور یاد رکھو جن لوگوں نے بیٹیاں زندہ درگور کیں حکمِ الہی کے بعد ان کی توبہ تو یقیننا قبول ہو گئی
لیکن بیٹیوں کے حقوق چھیننے کے بعد اوّل تو انسان معافی ہی نہیں مانگتا اور بالفرض مانگے تو .........؟؟سو چئے گا
No comments:
Post a Comment